سر کو چاہا بھی اٹھانا تو اٹھایا نہ گیا

سر کو چاہا بھی اٹھانا تو اٹھایا نہ گیا
کر کے سجدہ ترا پھر ہوش میں آیا نہ گیا


جلوۂ طور کا ہو دیکھنے والا بے خود
یہ بھی اک راز تھا اب تک جو بتایا نہ گیا


تو نے کس ناز سے دیکھا تھا ازل میں ان کو
آج تک ہوش میں دیوانوں سے آیا نہ گیا


تا دم زیست نہ آیا مرے نامہ کا جواب
نامہ بر مجھ کو برابر ہے گیا یا نہ گیا


وہ مٹائیں گے بھلا کیا مری ہستی افقرؔ
دہر میں نقش وفا جن سے مٹایا نہ گیا