ترے حسن نظر کا یہ بھی اک اعجاز ہے ساقی
ترے حسن نظر کا یہ بھی اک اعجاز ہے ساقی
کہ ہر مے کش زمیں پر آسماں پرواز ہے ساقی
خیال اتنا رہے بس اپنے ساغر کی پلانے میں
ترا انجام ہے ساقی مرا آغاز ہے ساقی
کہیں باہم دگر ٹکرا نہ جائیں ساغر و مینا
مئے سرجوش اس دم مائل پرواز ہے ساقی
جبین شوق سجدہ کر کہاں کا پاس رسوائی
خوشا وقتے کہ سرگرم خرام ناز ہے ساقی
ادھر بھی اک نظر او سب کی جانب دیکھنے والے
کہ اک رند خراباتی نظر انداز ہے ساقی
کریں توبہ تو دل بے چین اگر پی لیں تو رسوائی
عجب الجھن میں اپنی مے کشی کا راز ہے ساقی
شراب ارغوانی بھی پیوں میں خود تو پانی ہے
پلائے تو جو پانی بادۂ شیراز ہے ساقی
پس توبہ مجھے پینے میں آخر کیوں تامل ہو
بحمداللہ در توبہ ابھی تک باز ہے ساقی
وہ کیوں جانے لگا دیر و حرم کی ٹھوکریں کھانے
ترے افقرؔ کو تیرے میکدے پر ناز ہے ساقی