سامنے اس بت کے جب جانا پڑا
سامنے اس بت کے جب جانا پڑا
کفر پر ایماں مجھے لانا پڑا
بہر درماں ان کو جب آنا پڑا
درد دل کو اور بڑھ جانا پڑا
پھر بھی کب سمجھا فریب حسن کو
دل کو لاکھوں بار سمجھانا پڑا
جیتے جی دیدار جاناں تھا محال
زندگی میں مجھ کو مر جانا پڑا
کوئے جاناں کوچۂ جاناں تھا پھر
جنت واعظ کو ٹھکرانا پڑا
ہو چکا نذرانہ جب دل حسن کا
پھر جگر کو سامنے لانا پڑا
زندگی میں جب نہ افقرؔ آئے وہ
زندگی کو موت بن جانا پڑا