اقبال کی غزل گوئی: ابتدائی دور کی غزلوں کی روشنی میں

انسانی ذہن ہمہ وقت ارتقاء کے مراحل سے گزرتا رہتا ہے ۔یہ جامد نہیں رہتا بلکہ ہر وقت اس کی سوچ بدلتی رہتی ہے ۔ مختلف افکار و نظریات اور حالات و واقعات اس پر اپنے اثرات مرتسم کرتے رہتے ہیں ۔علامہ اقبال نے یوں تو اقبال نے سیالکوٹ ہی میں شاعری کا آغاز کر دیا تھا لیکن ایف اے کرنے کے بعد لاہور آنے کے بعد ان کے فن کو خاص طور پر جلا نصیب ہوئی اور انہوں نے باقاعدہ شاعری شروع کر دی ۔ان کے ابتدائی کلام ہمیں روایتی غزلیہ رنگ میں رنگا ہوا نظر آتا ہے ۔

مثلاً ذیل کی غزل ملاحظہ فرمائیے:

لاؤں وہ تنکے کہيں سے آشيانے کے ليے

بجلياں بے تاب ہوں جن کو جلانے کے ليے

دل ميں کوئي اس طرح کي آرزو پيدا کروں

لوٹ جائے آسماں ميرے مٹانے کے ليے

پوری غزل پڑھنے کے لیے یہاں پر کلک کیجیے

ماہرین اقبالیات علامہ اقبال کی شاعری کو عموماً پانچ ادوار میں منقسم کرتے ہیں۔ ان میں سے پہلا دور اقبال کے یورپ جانے سے پہلے تک کے عرصے پر محیط ہے۔ اس دور میں اقبال  کے کلام میں ہمیں روایتی اور قدیم غزل کے موضوعات اور نظر آتے ہیں جس میں وہ گل و لالہ  اور ہجر و وصال کے قصے بھی زیب قرطاس کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ ایک اور مثال ملاحظہ فرمائیے:

محبت کو دولت بڑی جانتے ہیں

اسے مایۂ زندگی جانتے ہیں

بُری چال ہوتی ہے بے اعتنائی

یہی ہم تو اچھّی بری جانتے ہیں

وہ کیا قدر جانیں گے میری وفا کی

کہ ہوتے ہیں جو آدمی ، جانتے ہیں

پوری غزل پڑھنے کے لیے یہاں پر کلک کیجیے

دراصل یہ اقبال کا طالب علمی کا دور تھا اور  اس دور کی شاعری میں زیادہ تر غزلیں شامل ہیں۔ اقبال کے پہلے استاد مرزا ارشد گورگانی تھے۔جس کے بعد داغ دہلوی کو اپنا استاد کیا۔ لیکن داغ نے چند غزلیں دیکھنے کے بعد کہہ دیا ان غزلوں میں اصلاح کی کی گنجائش بہت کم ہے۔ اقبال کے ابتدائی دور کی غزلیات بھی کوئی کم معیار کی نہیں ہیں گو ان میں وہ مقصدیت پسندی کا رنگ غالب نہیں نظر آتا۔ اس دور کی زیادہ تر شاعری کو اقبال نے " بانگ درا" ترتیب دیتے ہوئے حذف کر دیا تھا۔ اقبال نے یادگار کے طور پر اس دور کی چند غزلیں اس کتاب میں شامل کیں۔ اب اس غزل کو ملاحظہ فرمائیے اور اقبال کی اس دور کی طبیعت کی روانی اور شوخ بیانی پر غور فرمائیے:

نہ آتے ہمیں اس میں تکرار کیا تھی

مگر وعدہ کرتے ہوئے عار کیا تھی

کھنچے خود بخود جانبِ طور موسٰی

کشش تیری اے شوق دیدار کیا تھی!

پوری غزل پڑھنے کے لیے یہاں پر کلک کیجیے

اپنی سوچ کے تدریجی اور ارتقائی مراحل طے کرنے کے بعد گو اقبال نے اپنی ابتدائی شاعری کو درخور اعتنا نہیں گردانا لیکن جو اقبال کے مداح بطور ایک بلند پایہ شاعر ان کے تمام رنگوں سے آشنائی کے خواہاں ہیں انہیں اقبال کے اس نہایت شگفتہ ، معصوم اور "بریشم کی طرح نرم" سے بھی اپنی نگاہ وجدان کو روشناس کرنا چاہیے۔

متعلقہ عنوانات