علامہ اقبال کی شاعری میں حرکت و جمود کس طرح بیان کیا گیاہے؟
اقبال کے ہاں زندگی کا وجود حرکت سے وابستہ ہے جبکہ جمود یا سکون دراصل موت ہے۔ اقبال کے مطابق خدا کی تخلیق کردہ کائنات اسی لیے زندگی رکھتی ہے کیونکہ یہ مسلسل حرکت کی حالت میں ہے۔ اگر یہ ساکت ہوجائے تو اس کی موت واقع ہوجائے۔ اسی طرح اقبال نوجوانوں کو اپنی زندگی میں مسلسل جنبش اور حرکت اختیار کرنے کا پیغام دیتے ہیں ، کیون کہ ان کے نزدیک حرکت، محنت اور مسلسل سفر ہی اصل زندگی ہے۔
جنبش سے ہے زندگی جہاں کی
یہ رسم قدیم ہے یہاں کی
ہے دوڑتا الشہب زمانہ
کھا کھا کے طلب کا تازیانہ
اس رہ میں مقام بے محل ہے
پوشیدہ قرار میں اجل ہے
چلنے والے نکل گئے ہیں
جو ٹھہرے ذرا، کچل گئے ہیں
ایک اور جگہ فرماتے ہیں:
سکوں محال ہے قدرت کے کارخانے میں
ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں
گردش تاروں کا ہے مقدر
ہر ایک کی راہ ہے مقرر
ہے خواب ، ثبات آشنائی
آئیں جہاں کا ہے جدائی
سامان کی محبت میں مضمر ہے تن آسانی
مقصد ہے اگر منزل ،غارت گرساماں ہو
اقبال کے نزدیک زندگی کا وجود اس کی حرکت اور روانی سے ہی وابستہ ہے:
دمادم رواں ہے یم زندگی
ہر اک شے سے پیدا رم زندگی
زیادہ راحت منزل سے ہے نشاط رحیل
فریب نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرۂ کائنات
ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود
کہ ہر لحظہ تازہ ہے شانِ وجود
سمجھتا ہے تُو راز ہے زندگی
فقط ذوق پرواز ہے زندگی
فضائے نور میں کرتا نہ شاخ و برگ وبر پیدا
سفر خاکی کی شبستاں سے نہ کرسکتا اگر دانہ
سامان کی محبت میں مضمر ہے تن آسانی
مقصد ہے اگر منزل ،غارت گرساماں ہو
زیادہ راحت منزل سے ہے نشاط رحیل
فریب نظر ہے سکون و ثبات
تڑپتا ہے ہر ذرۂ کائنات
ٹھہرتا نہیں کاروانِ وجود
کہ ہر لحظہ تازہ ہے شانِ وجود
سمجھتا ہے تُو راز ہے زندگی
فقط ذوق پرواز ہے زندگی