علامہ اقبال نے اپنی شاعری میں تقدیر و تدبیر کو کس طرح بیان کیا
علامہ اقبال کے نزدیک اس کائنات میں موجود نباتات و جمادات اللہ کی طرف سے طے شدہ تقدیر کے پابند ہیں اور اس پابندی میں کسی لغزش یا تبدیلی کی گنجائش نہیں ہے۔
تارے مست شراب تقدیر
زندانِ فلک میں پابہ زنجیر
لیکن مومن کی نظر میں اس تقدیر کی تبدیلی اس کی قوت اور جدوجہد سے ممکن ہے۔ بشرطیکہ یہ جدوجہد حکمت الٰہی کے تابع ہو۔
تقدیر شکن قوت باقی ہے ابھی اس میں
ناداں جسے کہتے ہیں تقدیر کا زندانی
ستارہ کیا مری تقدیر کی خبر دے گا
وہ خود فرائی افلاک میں ہے خوار زبوں
کب تک رہے محکومی ٔ انجم میں مری خاک
یا میں نہیں یا گردش افلاک نہیں ہے
اقبال کی نظر میں مومن تو خود تقدیر الٰہی کا استعارہ ہے۔ یعنی خدا اس دنیا میں جو عمل رونما کرنا چاہتا ہے اور اس دنیا کو جس انداز سے دیکھنا چاہتا ہے۔ مرد مومن دراصل خدا کا وہ فرستادہ ہے جو اس تبدیلی کے عمل کا سربراہ ہے۔
کافر ہے تو ہے تابع تقدیر مسلمان
مومن ہے تو وہ آپ ہے تقدیر الہٰی
وہ ملتف ہوں تو کج قفس بھی آزادی
نہ ہوں تو صحن چمن بھی مقام مجبوری
ترے مقام کو انجم شناس کیا جانے
کہ خاک زندہ ہے تُو تابع ستارہ نہیں
نہ ستارے میں ہے،نَے گردش افلاک میں ہے
تیری تقدیر مرے نالۂ بیباک میں ہے
توڑ ڈالے گی یہی خاک طلسم شب و روز
گرچہ الجھی ہوئی تقدیر کے پیچاک میں ہے
تن بہ تقدیر ہے آج ان کے عمل کا انداز
تھی نہاں جن کے ارادوں میں خدا کی تقدیر
نا اہل کو حاصل ہے کبھی قوت و جبروت
ہے خوار زمانے میں کبھی جوہر ذاتی
ہر لحظہ ہے قوموں کےعمل پر نظر اس کی
براں صفت تیغ دو پیکر نظر اس کی
اک آن میں سوبار بدل جاتی ہے تقدیر
ہے اس کا مقلد ابھی ناخوش ابھی خورسند
تقدیر کے پابند ، نباتات و جمادات
مومن فقط احکام الٰہی کا ہے پابند
زندہ دل سے نہیں پوشیدہ ضمیر تقدیر
خواب میں دیکھتا ہے عالم نو کی تصویر
اور جب بانگ اذاں کرتی ہے بیدار سے
کرتا ہے خواب میں دیکھی ہوئی دنیا تعمیر
تیری دعا سے قضا توبدل نہیں سکتی
مگر ہے اس سے ممکن کہ تُو بدل جائے
تُو اپنی سر نوشت اب اپنے قلم سے لکھ
خالی رکھی ہے قامۂ حق نےتری جبیں
عبث ہے شکوۂ تقدیر یزداں
تو خود تقدیر یزداں کیوں نہیں ہے