علامہ اقبال کی شاعری میں مستقبل کی پیشنگوئیاں اور اسلامِ احیاء
علامہ اقبال کی شاعری میں جابجا ہمیں احیائے اسلام اور غلبہ اسلام کا تذکرہ ملتا ہے۔بلکہ یہ کہنا زیادہ مناسب ہوگا کہ اقبال کے ہاں اسلام کی نشاۃ ثانیہ ہی دراصل وہ بنیادی ہدف اور مقصد ہے جس کے لیے وہ اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو بیدار کرتے نظر آتے ہیں ۔
سنا دیا گوش منتظر کو حجاز کی خامشی نے آخر
جو عہد صحرائیوں سے باندھا گیا تھا پھر استوار ہوگا
نکل کے صحرا سے جس نےروما کی سلطنت کو الٹ دیا تھا
سنا ہے یہ قدسیوں سے میں نے وہ شیر پھر ہوشیار ہوگا
شام غم لیکن خبر دیتی ہے صبح عید کی
ظلمت شب میں نظر آئی کرن امیدکی
مژدہ اے پیمانہ بردارِخمستانِ حجاز!
بعد مدت کے ترے رندوں کو پھر آیا ہے ہوش
آنکھ کو بیدار کردے وعدۂ دیدار سے
زندہ کر دے دل کو سوز جوہر گفتار سے
دیکھ لو گے سطوت رفتار دریا کا مآل
موج مضطر ہی اسے زنجیر پا ہو جائے گی
نالہ صیاد سے ہوں گے نوا ساماں طیور
خون کلچیں سے کلی رنگیں نوا ہو جائے گی
آنکھ جو کچھ دیکھتی ہے لب پہ آسکتا نہیں
محو حیرت ہوں کہ دنیا کیا سے کیا ہو جائے گی
آشکار ا ہیں مری آنکھوں پہ اسرار حیات
کہہ نہیں سکتے مجھے نو مید پیکار حیات
تُو نے دیکھا سطوت رفتار دریا کا عروج
موج مضطر کس طرح بنتی ہے اب زنجیر دیکھ
کتاب ملت بیضا کی پھر شیرازہ بندی ہے
یہ شاخ ہاشمی کرنے کو ہے پھر برگ و بر پیدا
اگر عثمانیوں پر کوہ غم ٹوٹا ہے تو کیا غم ہے؟
کہ خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
دبا رکھا ہے اس کو زخم ور کی تیز دستی نے
بہت نیچے سُروں میں ہے ابھی یورپ کا واویلا
اسی دریا سے اُٹھتی ہے وہ موج تند جولاں بھی
نہنگوں کے نشیمن جس سے ہوتے ہیں تہ و بالا
الٹ جائیں گی تدبیریں ،بدل جائیں گی تقدیریں
حقیقت ہے،نہیں میرے تخیل کی یہ خلاقی
عجب نہیں کہ مسلماں کو پھر عطاکردیں
شکوہ سنجر و فقر جنیدؒو بسطامی ؒ
آب روانِ کبیر، تیرے کنارے کوئی
دیکھ رہا ہے کسی اور زمانے کا خواب
عالم نو ہے ابھی پردۂ تقدیر میں
مری نگاہوں میں ہے اس کی سحر بےحجاب
پردہ اٹھا دوں اگر چہرۂ افکار سے
لا نہ سکے گا فرنگ میری نواؤں کی تاب
وہ فکر گستاخ جس نے عریاں کیا ہے فطرت کی طاقتوں کو
اس کی بے تاب بجلیوں سے خطر میں ہے اس کا آشیانہ
جہانِ نو ہو رہا ہے پیدا ،وہ عالم پیر مر رہا ہے
جسے فرنگی مقامروں نے بنادیا ہے قمار خانہ