علامہ اقبال کی شاعری میں اقتصادیات کا تذکرہ

انسان صرف روح نہیں رکھتا بلکہ وہ جسم بھی رکھتا ہے۔کامیاب اور خوشگوار زندگی گزارنے کے لیے روحانی تقاضوں کے ساتھ ساتھ جسمانی ضروریات کو پورا کرنا بھی لازم ہے۔اسلام چونکہ مکمل ضابطہ حیات ہے اس لیے اس نے جسم و روح دونوں کے تقاضوں کی تکمیل پر زوردیا ہے۔یہی احسن اور متوازن نظریہ زندگی ہے۔قرآن حکیم میں محض عقائد و عبادات ہی کا تذکرہ نہیں بلکہ اس میں انسانی معاملات اور ان کے اہم معاشرتی اور اقتصادی پہلوؤں کا بھی ذکر موجود ہے۔اقتصادیات اور معاشیات کا انسانی زندگی کی خوشگواریوں اور ترقیوں کے ساتھ بہت گہرا ربط رہا ہے۔۔علامہ اقبالؒ اقتصادیات کی اس اہمیت سے بخوبی آگاہ تھے اس لیے انہوں نے اس کے چند اہم گوشوں پربھی اظہار خیال کیا ہے۔ان کی سب سے پہلی نثری کتاب علم الاقتصاد ہی کے بارے میں تھی۔

اس جہاں میں اک معیشت اور سوافتاد ہے

انتہا بھی اس کی ہے آخر خریدیں کب تلک

چھتریاں، رومال، مفلر پیرہن جاپان سے

اپنی غفلت کی یہی حالت اگر قائم رہی

آئیں گے غسال کابل سے،کفن جاپان سے

علامہ اقبال ؒ نے بجا کہا ہے کہ اس دنیا میں معیشت تو ایک ہی ہےمگر اس نے سینکڑوں مسائل پیدا کردیئے ہیں۔ورزی کمانے کے لیے انسانوں کو بہت دے پاپڑ پیلنے پڑتے ہیں۔دن رات اسی تگ و دو میں گزر جاتے ہیں۔نہ صرف اپنی روزی کے لیے بلکہ اپنے اہل وعیال کی معاشی ضرورتوں کو پورا کرنے کے لیے ہمیں کولہوکا بیل بننا پڑتا ہے۔چند روزہ زندگی میں کتنی ہی الجھنیں پیش آرہی ہیں

اے طائر لاہوتی!اس رزق سے موت اچھی

جس رزق سے آتی ہو پرواز میں کوتاہی

وہ علم نہیں زہر ہے ،احرار کے حق میں

جس علم کا حاصل ہے جہاں میں دو کف جو

ناداں!ادب و فلسفہ کچھ چیز نہیں ہے

اسباب ہنر کے لیے لازم ہے تگ ودو

علامہ اقبال ؒ کی رائے  میں جس علم کا مقصد محض روٹی کمانا ہی ہو وہ آزاد انسانوں کے حق میں زہر ثابت ہوتا ہے۔زندگی چونکہ جسم اور روح دونوں کا مجموعہ ہے اور روح جسم سے افضل ہے اس لیے روحانی مقاصد اور روحانی تقاضے جسمانی مقاصد پر فوقیت رکھتے ہیں۔محض کھانا پینا ہی مقصد حیات نہیں کیونکہ یہ تو حیوانی سطح کی زندگی ہے ۔