علامہ اقبال کی شاعری میں جمہوریت کا تذکرہ کس انداز سے ملتا ہے؟
شاعر مشرق علامہ اقبال بنیادی طور پر جمہوریت کے مخالف نہیں تھے۔ لیکن مغرب کی محض انسانوں کی تعداد کو گننے والی جمہوریت کے حق میں بھی نہیں تھے۔ ان کے نزدیک انسان کی قدر اس کی صلاحیت اور قابلیت کے لحاظ سے ہوتی ہے۔ اسلام کی نظر میں بھی شورائیت دراصل جمہورت کی ایک اعلیٰ شکل ہے اور اسی کے علامہ اقبال قائل تھے۔
ہے ہی ساز کہن ،مغرب کا جمہوری نظام
جس کے پردوں میں نہیں غیرازنوائے قیصری
دیو استبداد ،جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے،یہ آزادی کی ہے نیلم پری
مجلس آئین و اصلاح و رعایت و حقوق
طب مغرب میں مزے میٹھے اثر خواب آوری
گرمٔی گفتار اعضائے مجالس الاماں
یہ بھی اک سرمایہ داروں کی ہے جنگ زرگری
اس سراب رنگ و خوں کو گلستاں سمجھا ہے تُو
آہ ! اے ناداں !قفس کو آشیاں سمجھا ہے تُو
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے
علامہ کی نظر میں جمہوریت مغربی دراصل ایک ہتھکنڈہ ہے ابلیس کے ہاتھ میں، جس کی مدد سے وہ انسانوں کو ورغلاتا اور ایک راستے کی طرف ہانکتا ہے۔ یورپ اور مغرب کے جمہوری نظام کا چہرہ تو خوب صورت ہے لیکن درون خانہ یہ ابلیسی نظام ہے یا چنگیزی نظام ہے۔
تُو نے کیا دیکھا نہیں مغرب کا جمہوری نظام
چہرہ روشن ،اندروں چنگیز سے تاریک تر