قومی زبان

جلوے کو پردا پردے کو جلوہ بنا دیا

جلوے کو پردا پردے کو جلوہ بنا دیا اہل نظر کو تم نے تماشہ بنا دیا ذرے کو مہر قطرے کو دریا بنا دیا تیری نظر نے کیا سے ہمیں کیا بنا دیا حق نے تمہیں بڑا ہمیں چھوٹا بنا دیا جو کچھ بنا دیا بہت اچھا بنا دیا کیا پوچھتے ہو ہم نے تمہیں کیا بنا دیا روح حیات جان تمنا بنا دیا سرمستیٔ بہار کا ...

مزید پڑھیے

سینکڑوں غم کی سوغات دے کر مجھے (ردیف .. ن)

سینکڑوں غم کی سوغات دے کر مجھے پھر یہ کہتے ہیں ہم نے دیا کچھ نہیں اور بھی کچھ بچا ہو تو دے دو ہمیں تاکہ یہ کہہ سکو کے بچا کچھ نہیں تم گرا دو نظر سے کسی کو اگر اس سے بڑھ کر تو اس کی سزا کچھ نہیں کر تو لوں زندگی میں محبت صنم پر محبت میں غم کے سوا کچھ نہیں چل کے تھک جائیے تھک کے مر ...

مزید پڑھیے

کہاں تک سنو گے زمانے کی باتیں

کہاں تک سنو گے زمانے کی باتیں یہ اک دوسرے کو لڑانے کی باتیں محبت سے رہتے تھے آپس میں ہم تم تمہیں یاد ہیں اس زمانے کی باتیں زمانے میں اپنی یہ حالت نہ ہوتی نہ سنتے اگر ہم زمانے کی باتیں ہے دنیا کو امن و سکوں کی ضرورت کرو ختم طوفاں اٹھانے کی باتیں کچھ اس کی روش کو نہیں دیکھتے ...

مزید پڑھیے

تمہارے خزانے میں کیا کچھ نہیں

تمہارے خزانے میں کیا کچھ نہیں ہمارے مقدر میں تھا کچھ نہیں جسے چاہے جو کچھ سمجھ لیجئے حقیقت میں اچھا برا کچھ نہیں کہوں کیا کوئی سننے والا بھی ہو میرے پاس کہنے کو کیا کچھ نہیں میری بات سرکار نے سن تو لی میری بات سن کر کہا کچھ نہیں بنانے کو کیا کچھ بنایا گیا مگر اس سے اپنا بنا ...

مزید پڑھیے

کچھ ملے یا نہ ملے ملتے ملاتے رہیے

کچھ ملے یا نہ ملے ملتے ملاتے رہیے شوق اچھا ہے اسے خوب بڑھاتے رہیے دوست گر کام نہ آئے تو کوئی بات نہیں ان کو اس بات کا احساس کراتے رہیے آپ کے آنے سے لوگوں کو جلن ہوتی ہے ہے یہ دنیا کا چلن آپ تو آتے رہیے میں برا ہوں تو کیا آپ بھی ایسے ہوں گے آپ اچھے ہیں یہ سب کو بتاتے رہیے مجھ پہ ...

مزید پڑھیے

ذہین آپ کے در پر صدائیں دیتے رہے

ذہین آپ کے در پر صدائیں دیتے رہے جو نا سمجھ تھے وہ در در صدائیں دیتے رہے نہ جانے کون سی آئے صدا پسند اسے سو ہم صدائیں بدل کر صدائیں دیتے رہے پلٹ کے دیکھنا تو اس کا فرض بنتا تھا صدائیں فرض تھیں جن پر صدائیں دیتے رہے میں اپنے جسم سے باہر تلاشتا تھا انہیں وہ میرے جسم کے اندر صدائیں ...

مزید پڑھیے

یوں اپنی پیاس کی خود ہی کہانی لکھ رہے تھے ہم

یوں اپنی پیاس کی خود ہی کہانی لکھ رہے تھے ہم سلگتی ریت پہ انگلی سے پانی لکھ رہے تھے ہم میاں بس موت ہی سچ ہے وہاں یہ لکھ گیا کوئی جہاں پر زندگانی زندگانی لکھ رہے تھے ہم ملے تجھ سے تو دنیا کو سہانی لکھ دیا ہم نے وگرنہ کب سے اس کو بے معانی لکھ رہے تھے ہم ہمیں پہ گر پڑی کل رات وہ ...

مزید پڑھیے

غزل کی چاہتوں اشعار کی جاگیر والے ہیں

غزل کی چاہتوں اشعار کی جاگیر والے ہیں تمہیں کس نے کہا ہے ہم بری تقدیر والے ہیں وہ جن کو خود سے مطلب ہے سیاسی کام دیکھیں وہ ہمارے ساتھ آئیں جو پرائی پیر والے ہیں وہ جن کے پاؤں تھے آزاد پیچھے رہ گئے ہیں وہ بہت آگے نکل آئیں ہیں جو زنجیر والے ہیں ہیں کھوٹی نیتیں جن کی وہ کچھ بھی پا ...

مزید پڑھیے

کہیں نہ ایسا ہو اپنا وقار کھا جائے

کہیں نہ ایسا ہو اپنا وقار کھا جائے خزاں سے پھول بچائیں بہار کھا جائے ہمارے جیسا کہاں دل کسی کا ہوگا بھلا جو درد پالے رکھے اور قرار کھا جائے پلٹ کے سنگ تری اور پھینک سکتا ہوں کہ میں وہ قیس نہیں ہاں جو مار کھا جائے اسی کا داخلہ اس دشت میں کرو اب سے جو صبر پی سکے اپنا غبار کھا ...

مزید پڑھیے

مرہم کے نہیں ہیں یہ طرف دار نمک کے

مرہم کے نہیں ہیں یہ طرف دار نمک کے نکلے ہیں مرے زخم طلب گار نمک کے آیا کوئی سیلاب کہانی میں اچانک اور گھل گئے پانی میں وہ کردار نمک کے دونوں ہی کناروں پہ تھی بیماروں کی مجلس اس پار تھے میٹھے کے تو اس پار نمک کے اس نے ہی دیے زخم یہ گردن پہ ہماری پھر اس نے ہی پہنائے ہمیں ہار نمک ...

مزید پڑھیے
صفحہ 461 سے 6203