غزل کی چاہتوں اشعار کی جاگیر والے ہیں

غزل کی چاہتوں اشعار کی جاگیر والے ہیں
تمہیں کس نے کہا ہے ہم بری تقدیر والے ہیں


وہ جن کو خود سے مطلب ہے سیاسی کام دیکھیں وہ
ہمارے ساتھ آئیں جو پرائی پیر والے ہیں


وہ جن کے پاؤں تھے آزاد پیچھے رہ گئے ہیں وہ
بہت آگے نکل آئیں ہیں جو زنجیر والے ہیں


ہیں کھوٹی نیتیں جن کی وہ کچھ بھی پا نہیں سکتے
نشانے کیا لگیں ان کے جو ٹیڑھے تیر والے ہیں


تمہاری یادیں پتھر بازیاں کرتی ہیں سینے میں
ہمارے حال بھی اب ہو بہ ہو کشمیر والے ہیں