ذہین آپ کے در پر صدائیں دیتے رہے

ذہین آپ کے در پر صدائیں دیتے رہے
جو نا سمجھ تھے وہ در در صدائیں دیتے رہے


نہ جانے کون سی آئے صدا پسند اسے
سو ہم صدائیں بدل کر صدائیں دیتے رہے


پلٹ کے دیکھنا تو اس کا فرض بنتا تھا
صدائیں فرض تھیں جن پر صدائیں دیتے رہے


میں اپنے جسم سے باہر تلاشتا تھا انہیں
وہ میرے جسم کے اندر صدائیں دیتے رہے


ہمارے اشکوں کی آواز سن کے دوڑ پڑے
وہ جن کی پیاس کو ساگر صدائیں دیتے رہے


تمہاری یاد میں پھر رت جگا ہوا کل اور
سحر میں نیند کے پیکر صدائیں دیتے رہے