مرہم کے نہیں ہیں یہ طرف دار نمک کے

مرہم کے نہیں ہیں یہ طرف دار نمک کے
نکلے ہیں مرے زخم طلب گار نمک کے


آیا کوئی سیلاب کہانی میں اچانک
اور گھل گئے پانی میں وہ کردار نمک کے


دونوں ہی کناروں پہ تھی بیماروں کی مجلس
اس پار تھے میٹھے کے تو اس پار نمک کے


اس نے ہی دیے زخم یہ گردن پہ ہماری
پھر اس نے ہی پہنائے ہمیں ہار نمک کے


کہتی تھی غزل مجھ کو ہے مرہم کی ضرورت
اور دیتے رہے سب اسے اشعار نمک کے


جس سمت ملا کرتی تھیں زخموں کی دوائیں
سنتے ہیں کہ اب ہیں وہاں بازار نمک کے