مدار زیست ہے جس پر وہ سانس ہی کیا ہے
مدار زیست ہے جس پر وہ سانس ہی کیا ہے اگر ہو عشق سے خالی تو زندگی کیا ہے حضور دوست خبر ہو کہ بے خودی کیا ہے اسی کا نام ہے غفلت تو آگہی کیا ہے نفس نفس ترا سجدہ قدم قدم تری راہ جو زندگی سے الگ ہو وہ بندگی کیا ہے نہ اب ہے قرب کی خواہش نہ جستجوئے کرم کسی کا غم ہے سلامت تو پھر کمی کیا ...