بربادیوں پہ میری کسی کی نظر نہ ہو
بربادیوں پہ میری کسی کی نظر نہ ہو
دل چاہتا یہ ہے کہ تمہیں بھی خبر نہ ہو
وارفتگان حسن سے اچھا نہیں حجاب
برق جمال یار حریف نظر نہ ہو
یہ بے خودیٔ عشق یہ احساس ہجر یار
ہر صبح آفتاب تو نکلے سحر نہ ہو
میری نظر نے حسن کو دل کش بنا دیا
کیا جانے حسن کیا ہو جو میری نظر نہ ہو
رکتے ہیں پاؤں جادۂ کہنہ کو دیکھ کر
اپنی تو راہ وہ ہے جدھر رہ گزر نہ ہو
سیر چمن کے واسطے آنکھیں بھی چاہئیں
یہ حسن یہ بہار فریب نظر نہ ہو
ہونے کو ہے طلوع مرا مہر نیم شب
وہ رات کیا بشیرؔ جو خود ہی سحر نہ ہو