مدار زیست ہے جس پر وہ سانس ہی کیا ہے

مدار زیست ہے جس پر وہ سانس ہی کیا ہے
اگر ہو عشق سے خالی تو زندگی کیا ہے


حضور دوست خبر ہو کہ بے خودی کیا ہے
اسی کا نام ہے غفلت تو آگہی کیا ہے


نفس نفس ترا سجدہ قدم قدم تری راہ
جو زندگی سے الگ ہو وہ بندگی کیا ہے


نہ اب ہے قرب کی خواہش نہ جستجوئے کرم
کسی کا غم ہے سلامت تو پھر کمی کیا ہے


بنا دیا ہے مرے عشق کی نظر نے حسیں
تری ادا ترے جلوؤں کی دل کشی کیا ہے


نگاہ عشق سے پیدا تو ہو کوئی بجلی
گری نہ حسن کے دل پر تو بات ہی کیا


قیود لفظ میں دل کی صدا چھپی ہے بشیرؔ
ہمارے شعر ہیں کیا چیز شاعری کیا ہے