وہ میرا تھا مگر ایک اجنبی بھی

وہ میرا تھا مگر ایک اجنبی بھی
تھا سب کچھ پاس میرے اور کمی بھی


عجب انداز تھا میرے جنوں کا
خرد کے ساتھ تھی دیوانگی بھی


ہم اپنے شہر میں اس طرح آئے
نہ پہچانی گئی کوئی گلی بھی


یہ کیا حالت ہوئی گلشن کی آخر
گل و بلبل نہیں کوئی کلی بھی


تمہارا آستانہ کیا ملا ہے
ملی ہے بندگی اور زندگی بھی


اندھیروں میں غموں کے روشنی بھی
تصور سے ترے اک بے خودی بھی


ملا اپنا پتہ اس کو جو ڈھونڈا
ذرا سی کام آئی آگہی بھی


نسیمؔ ایسا ہوا دل مضطرب کچھ
نہ بھائی مجھ کو پھولوں کی ہنسی بھی