ڈر ڈر کے جسے میں سن رہا ہوں
ڈر ڈر کے جسے میں سن رہا ہوں کھوئی ہوئی اپنی ہی صدا ہوں ہر لمحۂ ہجر اک صدی تھا پوچھو نہ کہ کب سے جی رہا ہوں جب آنکھ میں آ گئے ہیں آنسو خود بزم طرب سے اٹھ گیا ہوں چھٹتی نہیں خوئے حق شناسی سقراط ہوں زہر پی رہا ہوں رہبر کی نہیں مجھے ضرورت ہر راہ کا موڑ جانتا ہوں منزل نہ ملی تو غم ...