حسن خود بن گیا تماشائی

حسن خود بن گیا تماشائی
مرحبا اے جنون رسوائی


حسن نے لی ازل میں انگڑائی
عشق نے چوٹ روح پر کھائی


جو تری راہ میں ہوئی پامال
ہائے اس زندگی کی رعنائی


جلوے خود ان کے بن گئے پردے
قربت حسن بھی نہ راس آئی


آب و گل سے یہاں کسے مطلب
جستجو کی ہے کار فرمائی


حسن ہی حسن جلوہ ہی جلوہ
کیسی دوری کہاں کی تنہائی


ہر نفس اک پیام ہے ان کا
ہر قدم پر ہے ہمت افزائی


روبرو ان کے دم بخود ہو بشیرؔ
کیا ہوئی شان شان گویائی