نہیں آساں کہ انساں میں فرشتے کی ہو خو پیدا

نہیں آساں کہ انساں میں فرشتے کی ہو خو پیدا
شکست آرزو کرتی ہے ترک آرزو پیدا


نہ دیکھو تو قیامت تک نہ آئے گا نظر جلوہ
اگر دیکھو تو شکل یار ہوگی چار سو پیدا


یہ نا ممکن ہے نالوں کا اثر اس سنگ دل پر ہو
یہ ممکن ہے کہ آہوں سے ہو پتھر میں لہو پیدا


پیوں گا شادماں ہو کر نگاہ مست ساقی سے
کروں گا روز محشر حاصل جام و سبو پیدا


خس و خاشاک بن کر جل اٹھے گا عالم امکاں
دل مومن کرے تو نعرۂ اللہ ہو پیدا


عمل کا ساز دلکش چھیڑ کر مجبور غم دیکھیں
فضا خود ہی کرے گی نغمۂ لا تقنطو پیدا


دل خورشید رخشاں میں بشیرؔ آخر جگہ پائی
یہاں تک قطرۂ شبنم نے کر لی آبرو پیدا