چل سکی کچھ نہ رہ عشق میں تدبیر مری
چل سکی کچھ نہ رہ عشق میں تدبیر مری
رنگ لاتی رہی ہر گام پہ تقدیر مری
آئنہ کیا ہے فقط حامل عکس جلوہ
ورنہ ہر ذرۂ عالم پہ ہے تصویر مری
راز سے اپنے میں آگاہ نہیں ہوں پھر بھی
جانتا ہوں کہ یہ کونین ہے تفسیر مری
آتش عشق کا اک شعلۂ بے باک ہوں میں
آب و گل سے نظر آتی نہیں تعمیر مری
آفریں جلوۂ بے باک خوشا فیض جمال
میری نظروں کو دکھائی گئی تصویر مری
یہ نظر کو ہے گلہ شوق نے ڈالے پردے
شوق کہتا ہے نظر بن گئی زنجیر مری
اب تو میں ہوں رسن و دار کی منزل ہے بشیرؔ
بے خودی جرم مرا عشق ہے تقصیر مری