حجاب ہم تھے ہمیں سے حجاب ہو کے رہا
حجاب ہم تھے ہمیں سے حجاب ہو کے رہا
ہمارا شوق کسی کا نقاب ہو کے رہا
کمال عشق نے جس دل کو انتخاب کیا
نگاہ حسن میں وہ انتخاب ہو کے رہا
نظر نظر رخ ساقی سے فیضیاب ہوئی
نفس نفس کو سرور شراب ہو کے رہا
مزے ملے ترے در پر وہ جبہہ سائی کے
میں بے نیاز عذاب و ثواب ہو کے رہا
جنہیں تھا رشک انہیں ہم پہ رحم آتا ہے
خدا کی شان یہ کیا انقلاب ہو کے رہا
اڑا اڑا سا ادھر رنگ ادھر جھکی سی نظر
عجب ادا سے سوال و جواب ہو کے رہا
کمال عشق کے انداز دیکھنا تو بشیرؔ
وجود بحر میں شامل حباب ہو کے رہا