تیری تصویر
تیری تصویر تو ڈھونڈے سے مجھے مل نہ سکی ہاں تیرے خط تھے میرے پاس امانت کی طرح ایک گمنام سی خاموش محبت کی طرح آج کی رات میری جان وہ پانی برسا چھت ٹپکتے ہی ترے ہاتھ کی اک اک تحریر لقمۂ آب ہوئی زندگی خواب ہوئی
تیری تصویر تو ڈھونڈے سے مجھے مل نہ سکی ہاں تیرے خط تھے میرے پاس امانت کی طرح ایک گمنام سی خاموش محبت کی طرح آج کی رات میری جان وہ پانی برسا چھت ٹپکتے ہی ترے ہاتھ کی اک اک تحریر لقمۂ آب ہوئی زندگی خواب ہوئی
اور میں سوچتا ہوں یوں ہی عمر بھر ایک کمرے میں شطرنج کی میز پر تم مسلسل مجھے مات دیتی رہو میں مسلسل یوں ہی مات کھاتا رہوں اپنی تقدیر پر مسکراتا رہوں
دل بیتاب کا پیام لیا پھر کسی نے مرا سلام لیا روٹھ کر ہم سے تو نے اے ظالم کس خطا کا ہے انتقام لیا ہو کے مجبور جوش الفت سے ہم نے دامن کسی کا تھام لیا پھول جھڑنے لگے زباں سے مری جب کسی گل بدن کا نام لیا کام آئے نہ عقل و ہوش جہاں ہم نے دیوانگی سے کام لیا ڈگمگاتے ہوئے مرے دل کو اس ...
بہ فیض گردش ایام ہم کو کسی صورت نہیں آرام ہم کو سکوں دشمن جنوں پرور ارادو نہ کر دینا کہیں بدنام ہم کو فسردہ خلوتوں میں یاد آ کر رلاتے ہیں وہ صبح و شام ہم کو اٹھا اے مطربا ساز محبت پلا اے ساقیٔ گلفام ہم کو نہ ہم کو زندگی کی ہے ضرورت نہ دنیا سے ہے کوئی کام ہم کو کسی کی بے وفائی کے ...
رہ طلب میں نہ کر اس طرح خراب مجھے ٹھہرنے دے کہیں اے چشم انتخاب مجھے بلا رہا ہے کہیں عشق سوئے دار و رسن پکارتا ہے کہیں حس بے نقاب مجھے میں ایک ذرۂ ناچیز ہی سہی لیکن نگاہ والے سمجھتے ہیں آفتاب مجھے بس ایک جرم محبت پہ اس ستم گر نے دئے ہیں شام و سحر سیکڑوں عذاب مجھے لٹی لٹی سی شب غم ...
بے رخی سے نہ پیش آ ساقی ٹوٹ جائے گا دل مرا ساقی بھول جاؤں میں رنج و غم سارے آج ایسا نشہ پلا ساقی میکشوں سے حجاب کیا معنی سامنے بے نقاب آ ساقی آہ ماضی مرا حسیں ماضی لوٹ کر اب نہ آئے گا ساقی راز میری سیاہ بختی کا کون جانے مرے سوا ساقی دشت غم میں بھٹک گیا ہوں میں راہ کوئی مجھے ...
پردہ ہٹا کے جب وہ حسیں مسکرائے گا بجلی ہمارے ہوش و خرد پر گرائے گا کیا تھی خبر کہ ترک تعلق کے بعد بھی ہم کو وہ شوخ پردہ نشیں یاد آئے گا امید و آرزو کی تباہی تو دیکھ لی اب اور کیا ہمیں یہ مقدر دکھائے گا اے قلب زار صبر و تحمل سے کام لے کب تک کسی کی یاد میں آنسو بہائے گا میری زباں ...
ہوا ہے ہر طرح پامال قلب ناتواں میرا بگاڑے گا بھلا اب اور کیا یہ آسماں میرا سناؤں اپنی روداد محبت کس کو دنیا میں نہ کوئی ہم نفس میرا نہ کوئی رازداں میرا نظر سے دور ہے منزل ابھی ہے بے بسی اپنی بھٹکتا ہے ابھی راہ جنوں میں کارواں میرا ہزاروں آندھیاں آئیں ہزاروں بجلیاں چمکیں رہے ...
اپنی ناکام محبت پہ ہنسی آتی ہے دل کی بگڑی ہوئی قسمت پہ ہنسی آتی ہے میں نے سمجھا تھا سہارا جسے اپنے دل کا آج مجھ کو اسی الفت پہ ہنسی آتی ہے ڈھل گئی جو کسی بے ربط سے افسانے میں دل کی اس تازہ حقیقت پہ ہنسی آتی ہے چاہتا ہے کہ انہیں شام و سحر پیار کرے دل معصوم کی حسرت پہ ہنسی آتی ...
خاک تک میرے آشیانے کی لے اڑی ہے ہوا زمانے کی اپنی تقدیر آزمانے کی آرزو ہے کسی کو پانے کی کیا کرو گے ہمارا دل لے کر تم کو عادت ہے بھول جانے کی سچ کہو کس سے پیار ہے تم کو ہم سے کیا بات ہے چھپانے کی ہم یوں ہی چاہتے رہیں گے تمہیں ہم کو پروا نہیں زمانے کی برق و باراں سے پوچھ اے ...