خاک تک میرے آشیانے کی
خاک تک میرے آشیانے کی
لے اڑی ہے ہوا زمانے کی
اپنی تقدیر آزمانے کی
آرزو ہے کسی کو پانے کی
کیا کرو گے ہمارا دل لے کر
تم کو عادت ہے بھول جانے کی
سچ کہو کس سے پیار ہے تم کو
ہم سے کیا بات ہے چھپانے کی
ہم یوں ہی چاہتے رہیں گے تمہیں
ہم کو پروا نہیں زمانے کی
برق و باراں سے پوچھ اے بلبل
داستاں میرے آشیانے کی
کوئی تدبیر اے دل ناداں
بات بگڑی ہوئی بنانے کی
ساقیا تیری مے فشاں نظریں
آبرو ہیں شراب خانے کی
ہم کو پامال کر گئی نیرؔ
ہر ادا سنگ دل زمانے کی