دل بیتاب کا پیام لیا
دل بیتاب کا پیام لیا
پھر کسی نے مرا سلام لیا
روٹھ کر ہم سے تو نے اے ظالم
کس خطا کا ہے انتقام لیا
ہو کے مجبور جوش الفت سے
ہم نے دامن کسی کا تھام لیا
پھول جھڑنے لگے زباں سے مری
جب کسی گل بدن کا نام لیا
کام آئے نہ عقل و ہوش جہاں
ہم نے دیوانگی سے کام لیا
ڈگمگاتے ہوئے مرے دل کو
اس حسیں اجنبی نے تھام لیا
شدت رنج و غم میں اے نیرؔ
ہم نے جام و سبو سے کام لیا