بہ فیض گردش ایام ہم کو

بہ فیض گردش ایام ہم کو
کسی صورت نہیں آرام ہم کو


سکوں دشمن جنوں پرور ارادو
نہ کر دینا کہیں بدنام ہم کو


فسردہ خلوتوں میں یاد آ کر
رلاتے ہیں وہ صبح و شام ہم کو


اٹھا اے مطربا ساز محبت
پلا اے ساقیٔ گلفام ہم کو


نہ ہم کو زندگی کی ہے ضرورت
نہ دنیا سے ہے کوئی کام ہم کو


کسی کی بے وفائی کے فسانے
سناتا ہے دل ناکام ہم کو


کسی نے اپنی مست آنکھوں سے نیرؔ
دیا ہے پیار کا پیغام ہم کو