اپنی ناکام محبت پہ ہنسی آتی ہے
اپنی ناکام محبت پہ ہنسی آتی ہے
دل کی بگڑی ہوئی قسمت پہ ہنسی آتی ہے
میں نے سمجھا تھا سہارا جسے اپنے دل کا
آج مجھ کو اسی الفت پہ ہنسی آتی ہے
ڈھل گئی جو کسی بے ربط سے افسانے میں
دل کی اس تازہ حقیقت پہ ہنسی آتی ہے
چاہتا ہے کہ انہیں شام و سحر پیار کرے
دل معصوم کی حسرت پہ ہنسی آتی ہے
جس پری وش کے لیے میں نے لٹا دی ہستی
اس کو بھی اب مری حالت پہ ہنسی آتی ہے