رہ طلب میں نہ کر اس طرح خراب مجھے
رہ طلب میں نہ کر اس طرح خراب مجھے
ٹھہرنے دے کہیں اے چشم انتخاب مجھے
بلا رہا ہے کہیں عشق سوئے دار و رسن
پکارتا ہے کہیں حس بے نقاب مجھے
میں ایک ذرۂ ناچیز ہی سہی لیکن
نگاہ والے سمجھتے ہیں آفتاب مجھے
بس ایک جرم محبت پہ اس ستم گر نے
دئے ہیں شام و سحر سیکڑوں عذاب مجھے
لٹی لٹی سی شب غم ہے چاندنی نیرؔ
بجھا بجھا نظر آتا ہے ماہتاب مجھے