جو مکتب ایجاد میں داخل ہوگا
جو مکتب ایجاد میں داخل ہوگا اوج اس کو فروتنی سے حاصل ہوگا دیتا ہے تواضع کا سبق عجز ہلال ناقص اسی مدرسہ میں کامل ہوگا
جو مکتب ایجاد میں داخل ہوگا اوج اس کو فروتنی سے حاصل ہوگا دیتا ہے تواضع کا سبق عجز ہلال ناقص اسی مدرسہ میں کامل ہوگا
گرمی امسال کس قیامت کی پڑی ایک ایک گھڑی ہوئی قیامت کی گھڑی امڈا یہ پسینہ یہ پڑی دھوپ کڑی بیساکھ میں لگ رہی ہے ساون کی جھڑی
افلاس میں کیوں ٹیکس لگا رکھا ہے اسٹام کے جال میں پھنسا رکھا ہے قانون نے اک لوٹ مچا رکھی ہے اس واسطے اس کا نام لا رکھا ہے
کب کوئی فضول ہاتھ ملتا ہے بھلا مطلب کہیں اس طرح نکلتا ہے بھلا جب داہنے ہاتھ سے گرہ کھل نہ سکی کب بائیں قدم سے کام چلتا ہے بھلا
سچ ہے کہ جہاں میں سیر کیا کیا دیکھی مشرق کی طرف برق تجلی دیکھی مغرب میں وہ روشنی گئی بن کے ہلال دیکھا نہ ادھر کسی کی دیکھا دیکھی
پیری کی سپیدی ہے کہ مرتا ہوں میں جوں شمع دم صبح گزرتا ہوں میں جنت کی ہوا بھری ہے سینے میں بیاںؔ ٹھنڈی ٹھنڈی جو سانس بھرتا ہوں میں
بیدار نہیں کوئی جہاں خواب میں ہے نیرنگ عجب عالم اسباب میں ہے کچھ خواب میں کچھ قید میں کچھ صحرا میں اک عمر سے کیا تفرقہ احباب میں ہے
ہاں جہل تمہیں سے رنگ لایا پھر کیوں لایا تو گلا زباں پر آیا پھر کیوں گر جانتے تھے خانہ خرابی کے سبب مہماں کو میزباں بنایا پھر کیوں
کہتے ہیں بصد ناز مرا نام نہ لو کیسے ہیں یہ انداز مرا نام نہ لو رسوائی سے ڈرتی ہے محبت اب تک کھل جائیں گے سب راز مرا نام نہ لو
سمجھا ہوا جب کوئی اشارا نہ ملے الفاظ کو معنی کا سہارا نہ ملے وہ ہم سے جدا ہو کے یہی کہتے ہیں طوفان کو اب کوئی کنارا نہ ملے