اب یہ بھی نہیں کہ نام تو لیتے ہیں
اب یہ بھی نہیں کہ نام تو لیتے ہیں دامن فقط اشکوں سے بھگو لیتے ہیں اب ہم ترا نام لے کے روتے بھی نہیں سنتے ہیں ترا نام تو رو لیتے ہیں
اب یہ بھی نہیں کہ نام تو لیتے ہیں دامن فقط اشکوں سے بھگو لیتے ہیں اب ہم ترا نام لے کے روتے بھی نہیں سنتے ہیں ترا نام تو رو لیتے ہیں
وہ حور کو چاہا کہ پری کو چاہا چاہا اسے ہم نے جس کسی کو چاہا سو رنگ سے تھی دل میں تمنا اس کی جب اس کو نہ چاہا تو اسی کو چاہا
کتنوں کو جگر کا زخم سیتے دیکھا دیکھا جسے خون دل ہی پیتے دیکھا اب تک روتے تھے مرنے والوں کو اور اب ہم رو دیے جب کسی کو جیتے دیکھا
مشکل ہی سے پھر دل سے نکل پاتی ہے جب روح میں اک چیز اتر جاتی ہے میں جس کو خیالوں سے مٹا دیتا ہوں خوابوں میں وہ تصویر ابھر آتی ہے
آخر کو بڑھی تو بات بڑھتی ہی گئی یہ تیرہ و تار رات بڑھتی ہی گئی پھر لاکھ کسی نے گدگدایا دل کو افسردگیٔ حیات بڑھتی ہی گئی
اس طرح بدل گئی ہے میری رفتار یوں مجھ سے ہے مختلف سا میرا کردار محسوس یہ ہو رہا ہے مجھ کو جیسے مجھ میں کوئی اور ہو رہا ہے بیدار
بخت نے پھر مجھے اس سال کھلائی ہولی سوز فرقت سے ز بس مجھ کو نہ بھائی ہولی شعلۂ عشق بھڑکتا ہے تو کہتا ہوں رساؔ دل جلانے کے لیے آہ یہ آئی ہولی
رحمت کا تیرے امیدوار آیا ہوں منہ ڈھانپے کفن میں شرمسار آیا ہوں آنے نہ دیا بار گنہ نے پیدل تابوت میں کاندھوں پہ سوار آیا ہوں
اسرار جہاں لطیفۂ غیبی ہیں سب عالم تحت و فوق ترکیبی ہیں واں بارش و امساک یہاں پیدا وار یہ چرخ و زمیں دونوں میاں بی بی ہیں
آوارۂ حرص در بہ در پھرتا ہے ہم سنگ فلاخن پئے زر پھرتا ہے کچھ ہاتھ بجز کلوخ آنے کا نہیں کم بخت فضول گرد سر پھرتا ہے