گر نیک دلی سے کچھ بھلائی کی ہے
گر نیک دلی سے کچھ بھلائی کی ہے یا بد منشی سے کچھ برائی کی ہے اپنے ہی لئے ہے سب نہ اوروں کے لئے اپنے ہاتھوں نے جو کمائی کی ہے
گر نیک دلی سے کچھ بھلائی کی ہے یا بد منشی سے کچھ برائی کی ہے اپنے ہی لئے ہے سب نہ اوروں کے لئے اپنے ہاتھوں نے جو کمائی کی ہے
مقصود ہے قید جستجو سے باہر وہ گل ہے دلیل رنگ و بو سے باہر اندر باہر کا سب تعین ہے غلط مطلب ہے کلام و گفتگو سے باہر
اب قوم کی جو رسم ہے سو اول جلول فاسد ہوئے قاعدے تو بگڑے معمول ہے عید مہذب نہ محرم معقول ہنسنا محمود ہے نہ رونا مقبول
بندہ ہوں تو اک خدا بناؤں اپنا خالق ہوں تو اک جہاں دکھاؤں اپنا ہے بندگی وہم اور خدائی پندار میں وہ ہوں کہ خود پتا نہ پاؤں اپنا
عید قرباں ہے آج اے اہل ہمہم ایسی عیدیں ہزار دیکھو پیہم قومی تعلیم کہہ رہی ہے بہ ادب صاحب کچھ ادھر بھی گوشۂ چشم کرم
قلاش ہے قوم تو پڑھے گی کیوں کر پسماندہ ہے اب تو پھر بڑھے گی کیوں کر بچوں کے لئے نہیں ہے اسکول کی فیس یہ بیل کہو منڈھے چڑھے گی کیوں کر
چکھی بھی ہے تو نے درد جام توحید یا سن ہی لیا ہے صرف نام توحید ہے کفر حقیقی کا نتیجہ ایماں ترک توحید ہے مقام توحید
جو تیز قدم تھے وہ گئے دور نکل دیکھے بھالے بہت مقامات و محل اس راہ کا پر کہیں نہ پایا انجام یعنی ہے وہی ہنوز روز اول
احوال سے کہا کسی نے اے نیک شعار تو ایک کو دو دیکھ رہا ہے ناچار بولا کہ اگر عیب یہ ہوتا مجھ میں دو چاند جو ہیں صاف نظر آتے چار
تقریر سے وہ فزوں بیان سے باہر ادراک سے وہ بری گمان سے باہر اندر باہر ہے وہ نہ پیدا پنہاں سرحد مکان و لا مکان سے باہر