کہتے ہیں رضاؔ کبھی کہیں پہنچا ہے

کہتے ہیں رضاؔ کبھی کہیں پہنچا ہے
بیٹھا ہے جہاں تھک کے وہیں پہنچا ہے
لو ڈوب گیا کل وہ بھنور سے لڑتے
کیا اب بھی وہ اس پار نہیں پہنچا ہے