سوز غم دوری نے جلا رکھا ہے
سوز غم دوری نے جلا رکھا ہے آہوں نے کنول دل کا بجھا رکھا ہے نکلو کہیں جلد عمر آخر ہے انیسؔ اس ہند سیہ بخت میں کیا رکھا ہے
سوز غم دوری نے جلا رکھا ہے آہوں نے کنول دل کا بجھا رکھا ہے نکلو کہیں جلد عمر آخر ہے انیسؔ اس ہند سیہ بخت میں کیا رکھا ہے
اصحاب نے پوچھا جو نبی کو دیکھا معراج میں حضرت نے کسی کو دیکھا کہنے لگے مسکرا کے محبوب خدا واللہ جہاں دیکھا علی کو دیکھا
جس پر کہ نظر لطف کی شبیر کریں ادنیٰ اعلیٰ سب اس کی توقیر کریں جس سنگ کو چاہیں وہ بنا دیں پارس جس خاک کو چاہیں ابھی اکسیر کریں
گلزار جہاں سے باغ جنت میں گئے مرحوم ہوئے جوار رحمت میں گئے مداح علی کا مرتبہ اعلیٰ ہے غالبؔ اسداللہ کی خدمت میں گئے
کھینچے مجھے موت زندگانی کی طرف غم خود لے جائے شادمانی کی طرف تیرا جو کرم ہو تو مثال مہ نو پیری سے پہنچ جاؤں جوانی کی طرف
گلشن میں پھروں کہ سیر صحرا دیکھوں یا معدن و کوہ و دشت و دریا دیکھوں ہر جا تری قدرت کے ہیں لاکھوں جلوے حیران ہوں دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں
اے خالق ذوالفضل و کرم رحمت کر اے دافع ہر رنج و الم رحمت کر سبقت ہے سدا غضب پہ رحمت کو تری اپنی تجھے رحمت کی قسم رحمت کر
انسان ہے خود اتنا کثیر الاطراف انسان کو انساں نظر آتا نہیں صاف ہر شخص ابھی کچھ ہے ابھی کچھ ابھی کچھ ہر چہرے پہ اتنے پر اسرار غلاف
یہ دور ہے یوں اپنی بصیرت کا قتیل جیسے نفس قم سے مسیحا ہو علیل فطرت کی ہے تسخیر نہ آدم کا عروج یہ وقت کے تابوت میں ہے آخری کیل
پشت و شکم و چشم و لب و گوش و دہان اس ربط تن و توش کو انسان نہ جان اسناد کا پندار نہ دولت کا خمار ہوتا ہے شرافت سے مشخص انسان