شاعری

میں تمہاری ہتھیلیوں میں زندہ رہوں گا

میں تمہاری ہتھیلیوں پر کچھ لکھنا چاہتا ہوں مجھے معلوم ہے شام کی گلی سے جنازہ گزرے گا انجان مردے اس کو کندھا دیں گے تمہاری آنکھیں دھویں کے بادل ہیں جو روح نہیں بن سکتے میری روح تمہارے جسم میں اگ آئے گی مگر روح کے پودے کو درخت بننے سے پہلے تمہاری انگلیاں چاٹ لیتی ہے بادل زمین پر آ ...

مزید پڑھیے

اب کے بچھڑنا المناک ہوگا

جب خود شر وہم بن جائے تو زندگی ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے حقیقت کا زہر ہم کسی کی چاہت میں پیتے ہیں جب سچائی لب پر لاتے ہیں تو مار دئے جاتے ہیں جدائی کا زینہ بہت طویل ہوتا ہے پل صراط کی طرح مقدر کا کنارہ نہیں ہوتا تقدیر کا شکوہ ہارے ہوئے سپاہی کی معذرت ہے ہم نصیب کھو دینے کا گلہ نہیں کرتے چپکے ...

مزید پڑھیے

شہر غم آلود میں

اس گلاب کو بھی دفنا دو خزاں کے سوکھے پتوں پر گلاب جل کے نوحوں کی افسردہ بارش میں کافور میں بسے جسم کو زمین کا پیوند بنا چکا ہوں جس پر مٹے تھے اس نے ہی ہمیں مٹا دیا سوکھے پتوں پر چلنے والے قدموں کے نشان نہیں ہوتے سانسوں اور آنکھوں کی کہانیاں دھند میں گم کہیں بھٹکتی روتی ہیں شہر غم ...

مزید پڑھیے

پتھر کا دل

محبت کو بد دعا نہ دو جشن جدائی دل ناصبور کی تجدید ہے بچھڑ جانا حادثہ ہے شب دلبری تمہیں کھو دینے کا سوگ ہے جہاں تقدیر کی تصویریں مٹا دی جاتی ہیں محبت کا انکشاف کہانی بن کر ہمیں برباد کر دیتا ہے بے بسی ہمیں جدا کر دیتی ہے محبت دلوں کے عقوبت خانے میں محفوظ رہتی ہے جب کوئی محبت میں ...

مزید پڑھیے

دل کا معاملہ

ہم بے حساب محبت کرتے ہیں کسی کو اس قدر چاہے جانا دیوانگی کا واہمہ ہے پھول نگر کے کھوٹے ہوئے لوگوں کی تلاش شہر میں ہنگامہ خریدتے لوگوں کے افلاس ہم کسی کو نہ چاہتے ہوئے بھی کسی سے منسوب ہو جاتے ہیں صدیوں کی طویل جدائی وہ سلگتے دل پر مسکراتے گزر جاتی ہے دل کا معاملہ اندھیرے میں ...

مزید پڑھیے

روایت

کسان درانتی سے فصل کاٹتے ہیں اور مزدور انہیں ترازو میں تولتے ہیں تجارت اور نفع ان کے حصے میں آتا ہے جو خواب دیکھتے ہیں نہ دیپ جلاتے ہیں

مزید پڑھیے

کچا رشتہ

ماں جی بارش کے آنے سے پہلے ہی ہم چاروں پانچوں بھائی مل کر اپنے ہاتھوں اپنے گھر کو لیپا پوتا کرتے ہیں ماں جی ہلکی ہلکی بوندا باندی ہی سے اپنے گھر کی چھت سے پانی رسنے لگتا ہے اور آندھی آنے سے پہلے ہی اپنے گھر کی دیواریں ہلنے لگتی ہیں ماں جی گوبر چکنی مٹی اور پانی ان تینوں میں کون سا ...

مزید پڑھیے

پھر لوٹ چلیں

صدیوں پہلے آدمی جنگل سے میدان کی سمت آیا تھا بستیاں بسا کر زندگی گزارنے کے لئے مگر اب بستیاں ہی جنگل بن گئی ہیں جہاں انسان جانور سے بد تر خصلتوں کا حامل ہو گیا ہے چلو پھر جنگل کی طرف لوٹ چلیں فطرت سے قریب ہونے کے لئے پر سکون زندگی کی تلاش میں

مزید پڑھیے

مگر میں کیا کروں

پھل آنے پر شاخیں جھکتی ہیں پھول اپنا اشتہار نہیں دیا کرتے ان کا رنگ اور خوشبو خود بہ خود لوگوں کو اپنی سمت کھینچتی ہے یہ اور ایسی تمام دوسری کہاوتیں مجھے ہمیشہ اپیل کرتی ہیں مگر میں کیا کروں مرے آس پاس زیادہ تر لوگ بات بات پر اپنی تعریف کرتے نہیں تھکتے

مزید پڑھیے

آج پھر

مجھے آج پھر وہ نظم شدت سے یاد آئی جو میں نے برسوں پہلے ایک خواب کے بکھر جانے پر کہی تھی ویسے میں نے عرصے سے خواب دیکھنا بند کر دیا تھا یعنی سرابوں کے پیچھے بھاگنا چھوڑ دیا تھا مگر خواب کب پیچھا چھوڑتے ہیں ادھر پھر کچھ دنوں سے ایک خواب آنکھوں میں رہا جس کے خوب صورت رنگ محل کے تانے ...

مزید پڑھیے
صفحہ 888 سے 960