شاعری

حیرت خانۂ امروز

اب کوئی پھول مرے درد کے دریا میں نہیں اب کوئی زخم مرے ذہن کے صحرا میں نہیں نہ کسی جنت ارضی کا حوالہ مجھ سے نہ جہنم کا دہکتا ہوا شعلہ کوئی میرے احساس کے پردے پہ رواں رہتا ہے میں کہاں ہوں؟ مجھے معلوم نہیں!! بولتے لفظ بھی خاموش تمنائی ہیں جاگتے خواب کی تعبیر یہی ہے شاید میری تقدیر ...

مزید پڑھیے

اعتراف

شب نشاط کے پیاروں کو چھوڑ آیا ہوں میں کتنے چاند ستاروں کو چھوڑ آیا ہوں یہ چاندنی پہ گھٹائیں یہ نیلگوں دریا میں ایسے کتنے نظاروں کو چھوڑ آیا ہوں تصورات کی دنیا حسین تھی جن سے میں ان حسین دیاروں کو چھوڑ آیا ہوں کوئی بتائے مجھے اب جیوں تو کیسے جیوں میں زندگی کے سہاروں کو چھوڑ آیا ...

مزید پڑھیے

شام سے تا بہ سحر کتنے ستارے ٹوٹے

کتنی ضو پاش امیدوں کے سہارے چھوٹے چاند اک مست شرابی کی طرح وارفتہ کہر کی دھند میں چلتا رہا گرتا پڑتا دشت تنہائی میں اٹھتے رہے خوش رنگ سراب رنگ کی لہروں پہ کھلتے رہے نسرین و گلاب سرو کے سائے میں الجھے ہوئے انفاس کے راگ ماضی و حال کے سنگم پہ چلاتے رہے آگ پہلے اک آگ لگی آگ پھر اک ...

مزید پڑھیے

اک شہر تھا اک باغ تھا

اک شہر تھا اک باغ تھا اک شہر تھا یا تازہ میووں سے لدا اک باغ تھا اک باغ تھا یا شوخ رنگوں سے بھرا بازار تھا بازار تھا یا جگنوؤں کی روشنی سے کھیلتی اک رات تھی اک رات تھی یا گنگناتی جھومتی نغمات کی بارش میں بھیگی وصل کی سوغات تھی اک شہر تھا اک باغ تھا اک رات تھی اور ان کے دامن میں بہار ...

مزید پڑھیے

پرانی فائلوں میں گنگناتی شام

اب ان بوسیدہ کاغذ کے پلندوں کی ضرورت کیا بچی ہے ان لفافوں پر پتے سارے پرانے ہو چکے ہیں ان کو رکھنا کس لیے بے رنگ تحریروں میں ڈوبے ان خطوں کی کیوں حفاظت چاہئے یہ پرانی فائلیں ضائع اگر ہو جائیں تو نقصان کیا ہے ہاتھ کیوں رکتے ہیں ان کاغذ کے ٹکڑوں کو جلانے میں اب ان کی معنویت کیا بچی ...

مزید پڑھیے

عدم سے پرے

وہ جگمگاتا ہوا شہر میری آنکھوں میں تمام رات لرزتا ہے آنسوؤں کی طرح کبھی سسکتا ہے ٹوٹے ہوئے مناروں میں کبھی ٹپکتا ہے آوازۂ بہار کی صورت حساب قطرۂ اشک آئینہ ستونوں کا مرے بجھے ہوئے چہرے کے سامنے آ کر پکارتا ہے چلے آؤ جان عہد گزشتہ وہ سائبان بہت انتظار کرتا ہے اجڑ گئی ہے تکلم کی ...

مزید پڑھیے

ملاقاتیں نہیں پھر بھی ملاقاتیں

سبو ٹوٹے محبت کی نمازوں میں وضو ٹوٹے دعا روئی دعا کے آسمانوں پر کئی چشمان و لب روئے کبھی کوئی سبب رونے کا نکلا ہے مگر ہم بے سبب روئے زمینوں اور زمانوں کی عجب رنجو گردش میں ہوا کے آستانے پر جھکائے سر پشیماں بے زباں تنہائیوں کے قافلے اترے وہی ہم تھے مجسم بندگی زخمی تماشے کے نشانے ...

مزید پڑھیے

رات ابھی آدھی گزری ہے

رات ابھی آدھی گزری ہے شہر کی رونق بجھی نہیں ہے تھکے نہیں ہیں اس محفل کے ساز ابھی تک یاد کے بالا خانوں سے آتی ہے کچھ آواز ابھی تک میں کہ زوال شہر کا نوحہ لکھنے والا ایک پرانا قصہ گو ہوں علامتوں کے جنگل سے صندل کی لکڑی ہاتھ میں لے کر ایوانوں سے گزر رہا ہوں سازندے اب آخری تھاپ کی ...

مزید پڑھیے

حویلی موت کی دہلیز پر

حویلی موت کی دہلیز پر کب سے کھڑی ہے چاند نے بجھ کر ستاروں نے اداسی اوڑھ کر پھولوں نے خوشبو کا لبادہ پھینک کر ماحول پس از مرگ کا تیار کر ڈالا ہے بس اک آخری ہچکی کے سب ہیں منتظر سارے اعزا و اقارب نوحہ خوانی کے لیے تیار بیٹھے ہیں حویلی موت کی دہلیز پر کب سے کھڑی ہے اس کے مرنے میں اگر ...

مزید پڑھیے

میں البم کے ورق جب بھی الٹتا ہوں

زمانے کھو گئے آئندہ و رفتہ کے میلے میں زمینیں گم ہوئیں پیکار ہست و نیست میں ایسی کوئی نقشہ مکانوں اور مکینوں تک پہنچنے کا ذریعہ بھی نہیں بنتا ہے تصویریں اب اپنی بستیوں میں دم بخود سہمی ہوئی نادم پڑی ہیں میں البم کے ورق جب بھی الٹتا ہوں تو کچھ آنسو کے قطرے جھلملاتے ہیں فسردہ ...

مزید پڑھیے
صفحہ 887 سے 960