اب کے بچھڑنا المناک ہوگا

جب خود شر وہم بن جائے
تو زندگی ٹوٹ پھوٹ جاتی ہے
حقیقت کا زہر ہم
کسی کی چاہت میں پیتے ہیں
جب سچائی لب پر لاتے ہیں
تو مار دئے جاتے ہیں
جدائی کا زینہ بہت طویل ہوتا ہے
پل صراط کی طرح
مقدر کا کنارہ نہیں ہوتا
تقدیر کا شکوہ
ہارے ہوئے سپاہی کی معذرت ہے
ہم نصیب کھو دینے کا گلہ نہیں کرتے
چپکے سے زندگی گنوا دیتے ہیں
کسی آہٹ کے بغیر
کسی کو بتلائے بغیر
اپنی عمر سے بڑا عشق کرتے ہیں
سب کچھ کھو کر تجھ میں کھو جاتے ہیں
دل پر انگاروں کا پیوند لگا لیتے ہیں
ہونٹوں پر زنجیر لٹکا لیتے ہیں


جب کوئی وعدہ کر کے بھی نہ آئے
تو مسکرا کر سو جانا چاہیے
نیند عشق سے بہتر ہے
اور عشق وعدے سے
جب کوئی تنہا چھوڑ کر چلا جائے
تو دل مہتاب کے آنگن میں
اسے نقش کر لینا چاہئے
جدائی کے سکوت گم گشتہ میں
تم نے مجھے کیوں بھلا دیا
ابھی تو کئی فسانے باقی تھے
یوں اچانک معدوم ہو جانا
کسی کو دیوانہ بنا دیتا ہے
اتنا وقت بھی نہیں ہوتا
کہ جدائی کا فرمان سنایا جا سکے
یا مخدوش کو دہلیز رنجیدہ میں دفن کر دینا
قبل رخصت شب مدہوش کے بستر سے
چاندنی کی سلوٹیں مٹا دینا
کہ اس شہر کی ہوائیں بہت داغدار ہیں


اب کے بچھڑنا المناک ہوگا
کئی گزرے سانحوں کی طرح
آؤ تمہیں ایک نوحہ سنا دوں
جو عشق کی حکایت ہے
جو داستان بنے گی
ان بے وفا دہکتی گلیوں میں