شہر غم آلود میں

اس گلاب کو بھی دفنا دو
خزاں کے سوکھے پتوں پر گلاب جل کے نوحوں کی افسردہ بارش
میں کافور میں بسے جسم کو زمین کا پیوند بنا چکا ہوں
جس پر مٹے تھے اس نے ہی ہمیں مٹا دیا
سوکھے پتوں پر چلنے والے قدموں کے نشان نہیں ہوتے
سانسوں اور آنکھوں کی کہانیاں دھند میں گم کہیں بھٹکتی روتی ہیں
شہر غم آلود میں
کیا تم نے خوابوں کے گھر کو مسمار اور اجڑتے دیکھا ہے