شاعری

نکلا ہے ظلم توڑ کے سارے حصار بھاگ

نکلا ہے ظلم توڑ کے سارے حصار بھاگ سنتا ہے کون اب نہ کسی کو پکار بھاگ میں گردشوں سے بھاگتا پھرتا ہوں رات دن تو بھی زمین چھوڑ کے اپنا مدار بھاگ گو قافلہ چلا گیا تو غم زدہ نہ ہو وہ دیکھ اٹھ رہا ہے ابھی بھی غبار بھاگ لپٹی ہے تیرے جسم سے کیوں دوپہر کی شال کیوں ہو رہا ہے دن کی ہوس کا ...

مزید پڑھیے

جلوے بے ہوش نہ کر دیں ترے دیوانوں کو

جلوے بے ہوش نہ کر دیں ترے دیوانوں کو شمع کی لو نہ کہیں پھونک نہ دے پروانوں کو کر نہ تلقین ادب بزم میں مستانوں کو ہوش رہتا ہے کسے دیکھ کے پیمانوں کو صبح کی پہلی کرن شب کا ہٹاتی ہے نقاب زندگی از سر نو ملتی ہے ارمانوں کو زیست بے رنگ تھی سادہ تھی کہانی دل کی رنگ بخشا تری الفت نے ہی ...

مزید پڑھیے

مجھ کو جو تم سے ہوا وہ پیار بھی عجلت میں تھا

مجھ کو جو تم سے ہوا وہ پیار بھی عجلت میں تھا پیار کیا اس پیار کا اظہار بھی عجلت میں تھا اک پیمبر کو کیا نیلام کچھ سوچے بغیر کس قدر وہ مصر کا بازار بھی عجلت میں تھا دوڑتے اونٹوں سے گرتے راہیوں کو چھوڑ کر قافلہ اور قافلہ سالار بھی عجلت میں تھا ہے ملی مجھ کو سزائے زیست تو بس اس ...

مزید پڑھیے

یہ ریگ صحرا پہ جو کہانی پڑی ہوئی ہے

یہ ریگ صحرا پہ جو کہانی پڑی ہوئی ہے اسی کہانی میں زندگانی پڑی ہوئی ہے کوئی بیاباں سے مجھ کو آواز دے رہا ہے تمہارے حصے کی رائیگانی پڑی ہوئی ہے کسی کے رستے میں منزلوں کے نشاں پڑے ہیں کسی کے رستے میں ناگہانی پڑی ہوئی ہے یہ کون پلکوں سے خاک روبی میں منہمک ہے یہ کس کی چوکھٹ پہ ...

مزید پڑھیے

اک دشت میں اک کارواں رکتا رہا چلتا رہا

اک دشت میں اک کارواں رکتا رہا چلتا رہا خوف و خطر کے درمیاں رکتا رہا چلتا رہا پھولوں ہر اس اس جگہ آ کر بسائیں بستیاں ان راستوں پر تو جہاں رکتا رہا چلتا رہا پہلے تھے ویرانے جہاں اب ہیں وہاں آبادیاں یعنی ہجوم بے کراں رکتا رہا چلتا رہا چلتے ہوئے رکتے ہوئے دیکھا تو میں حیراں ہوا ہم ...

مزید پڑھیے

حسیں رتوں نے مرے ساتھ جس کا نام لیا

حسیں رتوں نے مرے ساتھ جس کا نام لیا میں گر رہا تھا کہ آ کر اسی نے تھام لیا اداسی حبس دھواں عشق بیکلی صحرا سبھی نے مجھ سے فقط اپنا اپنا کام لیا بدل چکے تھے قوانین جنگ سو میں نے دیا بجھا کے اندھیرے سے انتقام لیا وہ عشق بن کے دھڑکنے لگا ہے سینوں میں فنا کے ہاتھ سے جس نے بقا کا جام ...

مزید پڑھیے

یوں سب کچھ دیکھ کر بھی دیکھتا کوئی نہیں ہے

یوں سب کچھ دیکھ کر بھی دیکھتا کوئی نہیں ہے سو ہم پہ بولتے ہیں بولتا کوئی نہیں ہے فریب آئنہ ہے بس تماشہ ہے یہ دنیا یہاں پر سب خدا ہیں اور خدا کوئی نہیں ہے وہ کس کی آگ تھی کس نے جلایا گھر ہمارا یہ سب ہی جانتے ہیں مانتا کوئی نہیں ہے ہوائیں چاند تارے پھول خوشبو دشت دریا یہ سب کے سب ...

مزید پڑھیے

مسکرانے سے مدعا کیا ہے

مسکرانے سے مدعا کیا ہے کہہ رہے ہیں تمہیں ہوا کیا ہے پیرہن عدل کا پہن آئی کون مظلوم ہے جفا کیا ہے شکوہ کے نام سے ہی برہم ہیں یہ نہیں پوچھتے گلا کیا ہے ڈال دی جس کے حوصلہ نے سپر وہ تنک آرزو جیا کیا ہے خدمت بندگان حق کے سوا اس خرابے میں کیمیا کیا ہے سادگی میں ہزار پرکاری بانکپن ...

مزید پڑھیے

ذرا نہ ہم پہ کیا اعتبار گزری ہے

ذرا نہ ہم پہ کیا اعتبار گزری ہے یہ روح جسم سے بیگانہ وار گزری ہے ہمیں گماں بھی نہ تھا ان کی طبع نازک پر ذرا سی بات ستائش کی بار گزری ہے خرد کے زور سے ہمت کے بال و پر لے کر کہاں کہاں سے یہ مشت غبار گزری ہے کٹے گا کیسے یہ ویران بے سہارا دن ابھی تو صرف شب انتظار گزری ہے بدون زخم نہ ...

مزید پڑھیے

آنکھ جو عشوۂ پرکار لیے پھرتی ہے

آنکھ جو عشوۂ پرکار لیے پھرتی ہے مژدۂ‌ طالع بیدار لیے پھرتی ہے نام سے داد بھی ملتی ہے سخن کو اکثر چرخ پر شہرت فن کار لیے پھرتی ہے خاک سے پھول نکلتے ہیں مہکتا ہے چمن کیا زمیں طبلۂ عطار لیے پھرتی ہے کوئی محفل بھی نہیں جو نہ ہو تائید طلب در بدر جرأت انکار لیے پھرتی ہے بن گئی پردہ ...

مزید پڑھیے
صفحہ 30 سے 4657