نکلا ہے ظلم توڑ کے سارے حصار بھاگ
نکلا ہے ظلم توڑ کے سارے حصار بھاگ
سنتا ہے کون اب نہ کسی کو پکار بھاگ
میں گردشوں سے بھاگتا پھرتا ہوں رات دن
تو بھی زمین چھوڑ کے اپنا مدار بھاگ
گو قافلہ چلا گیا تو غم زدہ نہ ہو
وہ دیکھ اٹھ رہا ہے ابھی بھی غبار بھاگ
لپٹی ہے تیرے جسم سے کیوں دوپہر کی شال
کیوں ہو رہا ہے دن کی ہوس کا شکار بھاگ
بھولا دیار غیر میں آیا ہے تو تجھے
الجھا نہ دے یہ گردش لیل و نہار بھاگ
اک تو بچا ہے شہر تو سارا اجڑ گیا
اب کر رہا ہے کس کا بھلا انتظار بھاگ
اک پل میں ہی سمیٹ لے صدیوں کا فاصلہ
پاؤں سے قیسؔ وقت کی بیڑی اتار بھاگ