مجھ کو جو تم سے ہوا وہ پیار بھی عجلت میں تھا
مجھ کو جو تم سے ہوا وہ پیار بھی عجلت میں تھا
پیار کیا اس پیار کا اظہار بھی عجلت میں تھا
اک پیمبر کو کیا نیلام کچھ سوچے بغیر
کس قدر وہ مصر کا بازار بھی عجلت میں تھا
دوڑتے اونٹوں سے گرتے راہیوں کو چھوڑ کر
قافلہ اور قافلہ سالار بھی عجلت میں تھا
ہے ملی مجھ کو سزائے زیست تو بس اس لیے
منصفی عجلت میں پیروکار بھی عجلت میں تھا
دن ابھی نکلا نہیں اور بے خطر وہ سو گیا
اس گلی کا سست پہرے دار بھی عجلت میں تھا
تھا وہ عجلت میں جسے کرنا تھا دن بھر کام اور
گھر میں بستر پر پڑا بے کار بھی عجلت میں تھا
پھول کو چھیڑا نہیں اور قیسؔ زخمی ہو گیا
منسلک اس شاخ سے اک خار بھی عجلت میں تھا