ذرا نہ ہم پہ کیا اعتبار گزری ہے
ذرا نہ ہم پہ کیا اعتبار گزری ہے
یہ روح جسم سے بیگانہ وار گزری ہے
ہمیں گماں بھی نہ تھا ان کی طبع نازک پر
ذرا سی بات ستائش کی بار گزری ہے
خرد کے زور سے ہمت کے بال و پر لے کر
کہاں کہاں سے یہ مشت غبار گزری ہے
کٹے گا کیسے یہ ویران بے سہارا دن
ابھی تو صرف شب انتظار گزری ہے
بدون زخم نہ روئیں گے پاؤں کے چھالے
بہے سرشک جہاں نوک خار گزری ہے
کہاں ہے عارض خورشید نیم روز کہ عمر
میان کاکل شب ہائے تار گزری ہے
چھپا لبوں پہ تبسم عیاں جبیں پہ شکن
ہنسی کی بات انہیں ناگوار گزری ہے
گئی جدھر سے وہ مدہوش ہو گئی محفل
مگر وہ شوخ نظر ہوشیار گزری ہے
عقب میں اپنے چھپائے ہزارہا پیکاں
نظر کے سامنے مژگان یار گزری ہے
ہجوم شوق کے ہاتھوں گلے پہ حامدؔ کے
نہ پوچھئے جو دم اختصار گزری ہے