یوں سب کچھ دیکھ کر بھی دیکھتا کوئی نہیں ہے

یوں سب کچھ دیکھ کر بھی دیکھتا کوئی نہیں ہے
سو ہم پہ بولتے ہیں بولتا کوئی نہیں ہے


فریب آئنہ ہے بس تماشہ ہے یہ دنیا
یہاں پر سب خدا ہیں اور خدا کوئی نہیں ہے


وہ کس کی آگ تھی کس نے جلایا گھر ہمارا
یہ سب ہی جانتے ہیں مانتا کوئی نہیں ہے


ہوائیں چاند تارے پھول خوشبو دشت دریا
یہ سب کے سب ہیں تیرے اور مرا کوئی نہیں ہے


میں غسل عکس کرنا چاہتا ہوں آئنہ دو
کہ مجھ میں اب بھی میں رہتا ہوں یا کوئی نہیں ہے


چلو اب مان لو یہ دوریاں خود ساختہ ہیں
وگرنہ دل سے دل تک فاصلہ کوئی نہیں ہے