اک دشت میں اک کارواں رکتا رہا چلتا رہا

اک دشت میں اک کارواں رکتا رہا چلتا رہا
خوف و خطر کے درمیاں رکتا رہا چلتا رہا


پھولوں ہر اس اس جگہ آ کر بسائیں بستیاں
ان راستوں پر تو جہاں رکتا رہا چلتا رہا


پہلے تھے ویرانے جہاں اب ہیں وہاں آبادیاں
یعنی ہجوم بے کراں رکتا رہا چلتا رہا


چلتے ہوئے رکتے ہوئے دیکھا تو میں حیراں ہوا
ہم راہ میرے آسماں رکتا رہا چلتا رہا


جانے کہاں کے لوگ تھے اور جا رہے تھے وہ کہاں
ہر شخص پہنے بیڑیاں رکتا رہا چلتا رہا


میرے گزشتہ کے نشاں مجھ کو نہ آ پائے نظر
اے زندگی میں کب کہاں رکتا رہا چلتا رہا


گو قافلے کی ہر سواری قیسؔ تھک کے مر گئی
بے دم اکیلا سارباں رکتا رہا چلتا رہا