شاعری

سوز دروں کو آنکھ سے باہر نکال کر

سوز دروں کو آنکھ سے باہر نکال کر ہر شاخ رکھ رہی ہے گل تر نکال کر لائے حسین آخری لشکر نکال کر خیمے سے تشنہ لب علی اصغر نکال کر تھوڑے ہی دن ہے شاخ شجر پر یہ نغمگی اڑ جائیں گے یہ لوگ نئے پر نکال کر اہل نظر کے سامنے رکھتا ہوں دیکھ لیں لایا ہوں مشت خاک سے گوہر نکال کر یوں بھی ہو مجھ ...

مزید پڑھیے

لو ہوں مگر چراغ کے اندر نہیں ہوں میں

لو ہوں مگر چراغ کے اندر نہیں ہوں میں اتھلی سیاہیوں کو بھی ازبر نہیں ہوں میں دیوار ہوں اور ایک جبیں کا سوال ہوں سمٹے ہوئے قدم کے لیے در نہیں ہوں میں آنکھوں کے پار آخری ندی ہے نیند کی ندی کی تہ میں رینگتا پتھر نہیں ہوں میں شیشے کے اس طرف بھی دکھائی نہیں دیا پانی کے انجماد سے بہتر ...

مزید پڑھیے

ہم نے تو خاک بھی دیکھا نہ اثر رونے میں

ہم نے تو خاک بھی دیکھا نہ اثر رونے میں عمر کیوں کھوتے ہو اے دیدۂ تر رونے میں رات کب آئے تم اور کب گئے معلوم نہیں جان اتنی نہ رہی ہم کو خبر رونے میں جب تلک اشک تھمیں بیٹھ اگر آیا ہے تیری صورت نہیں آتی ہے نظر رونے میں تجھ کو اے دیدۂ تر شغل ہے رونا لیکن ڈوبا جاتا ہے یہاں دل کا نگر ...

مزید پڑھیے

تڑپتے دل کی کشتی مفلسی میں ڈوب جائے گی

تڑپتے دل کی کشتی مفلسی میں ڈوب جائے گی محبت بن کے حسرت بے بسی میں ڈوب جائے گی اسی امید پر سہتا رہا میں دھوپ کی یورش کسی دن میری ہستی چاندنی میں ڈوب جائے گی خدا کا شکر ہے بچے مرے تہذیب والے ہیں یہ ڈر تھا نسل اپنی تیرگی میں ڈوب جائے گی یہی آثار لگتا ہے نہ مل پائیں گے ہم دونوں تمنا ...

مزید پڑھیے

اتنے زمانے بھر کے ستم دیکھتے رہے

اتنے زمانے بھر کے ستم دیکھتے رہے پھر بھی خدا کا سب پہ کرم دیکھتے رہے گھر کو ہمارے سامنے لوٹا گیا مگر مورت بنے کھڑے ہوئے ہم دیکھتے رہے مٹی کا اک کھلونا جو بچے سے گر گیا تب سے ہم اس کی آنکھوں کو نم دیکھتے رہے دیکھا نہ ہوگا چاند کسی نے قریب سے تھا روبرو خدا کی قسم دیکھتے رہے اب تک ...

مزید پڑھیے

دیتا ہے کوئی دل پہ لگاتار دستکیں

دیتا ہے کوئی دل پہ لگاتار دستکیں بے چین کر رہی ہیں مجھے یار دستکیں وہ در کھلے کھلے نہ کھلے اس سے کیا غرض ہم دے رہے ہیں دیں گے لگاتار دستکیں کوئی بھی در ملے تو لپکتا ہوں اس کی سمت ایسی بندھی ہیں ہاتھوں سے اس بار دستکیں ہم مفلسوں تک اس کے سوا کیا پہنچ سکا دو چار دس صدائیں ہیں دو ...

مزید پڑھیے

آ گئے مجھ میں بھی کچھ رنگ زمانے والے

آ گئے مجھ میں بھی کچھ رنگ زمانے والے اب مری آنکھ میں آنسو نہیں آنے والے تم مرا نام جو اک بار زباں پر لے آؤ خود مرے دام بڑھا دیں گے گھٹانے والے اب کے کوئی بھی تری سمت نہیں آئے گا سب کو ہر روز نئی سمت بتانے والے یہ جو شہرت نے مرا نام و نسب پوچھ لیا اب مجھے سر پہ بٹھائیں گے گرانے ...

مزید پڑھیے

رہ رہ کر جو تھک کر بیٹھے اس کو چلنا کب آتا ہے

رہ رہ کر جو تھک کر بیٹھے اس کو چلنا کب آتا ہے یار مسلسل چلتے رہنے سے چلنے کا ڈھب آتا ہے دیوانوں کی دنیا کے دستور بہت الٹے ہوتے ہیں منزل مل جاتی ہے پہلے تب جا کر مکتب آتا ہے اس دنیا میں مفلس ہونا موت سے کچھ آگے کا دکھ ہے اس کے بھی بچے بھوکے ہیں جس کو یہاں کرتب آتا ہے اسی لیے تو روکا ...

مزید پڑھیے

جب کوئی زخم مرے دل پہ نیا لگتا ہے

جب کوئی زخم مرے دل پہ نیا لگتا ہے تب مجھے حوصلہ جینے کا ہرا لگتا ہے عشق کے دن تھے کہ نفرت بھی بھلی لگتی تھی اب کوئی پیار سے دیکھے تو برا لگتا ہے جانے کیوں اب میں کتابیں بھی اگر پڑھتا ہوں ان میں بھی تیرے ہی ہاتھوں کا لکھا لگتا ہے نہ ملا جس کو ہر اک گام پہ ڈھونڈ آیا میں وہ تو مجھ کو ...

مزید پڑھیے

درد بڑھتا ہے تو لگتا ہے دوا سب کچھ ہے

درد بڑھتا ہے تو لگتا ہے دوا سب کچھ ہے میں اسے کیسے بتاؤں وہ مرا سب کچھ ہے یہ الگ بات کہیں نام نہ آیا اس کا میں نے جس شخص کے بارے میں لکھا سب کچھ ہے دل اسی شخص سے اک آس لگا بیٹھا ہے جس کے دامن میں محبت کے سوا سب کچھ ہے رات کہرام مچایا تھا چراغوں نے بہت یہ کوئی بول نہ پایا کہ ہوا سب ...

مزید پڑھیے
صفحہ 2894 سے 4657