سوز دروں کو آنکھ سے باہر نکال کر
سوز دروں کو آنکھ سے باہر نکال کر ہر شاخ رکھ رہی ہے گل تر نکال کر لائے حسین آخری لشکر نکال کر خیمے سے تشنہ لب علی اصغر نکال کر تھوڑے ہی دن ہے شاخ شجر پر یہ نغمگی اڑ جائیں گے یہ لوگ نئے پر نکال کر اہل نظر کے سامنے رکھتا ہوں دیکھ لیں لایا ہوں مشت خاک سے گوہر نکال کر یوں بھی ہو مجھ ...