تڑپتے دل کی کشتی مفلسی میں ڈوب جائے گی

تڑپتے دل کی کشتی مفلسی میں ڈوب جائے گی
محبت بن کے حسرت بے بسی میں ڈوب جائے گی


اسی امید پر سہتا رہا میں دھوپ کی یورش
کسی دن میری ہستی چاندنی میں ڈوب جائے گی


خدا کا شکر ہے بچے مرے تہذیب والے ہیں
یہ ڈر تھا نسل اپنی تیرگی میں ڈوب جائے گی


یہی آثار لگتا ہے نہ مل پائیں گے ہم دونوں
تمنا وصل کی غم کی ندی میں ڈوب جائے گی


کہاں تک داستان غم سنائیں آپ کو عرفانؔ
طبیعت آپ کی پھر بیکلی میں ڈوب جائے گی