اتنے زمانے بھر کے ستم دیکھتے رہے

اتنے زمانے بھر کے ستم دیکھتے رہے
پھر بھی خدا کا سب پہ کرم دیکھتے رہے


گھر کو ہمارے سامنے لوٹا گیا مگر
مورت بنے کھڑے ہوئے ہم دیکھتے رہے


مٹی کا اک کھلونا جو بچے سے گر گیا
تب سے ہم اس کی آنکھوں کو نم دیکھتے رہے


دیکھا نہ ہوگا چاند کسی نے قریب سے
تھا روبرو خدا کی قسم دیکھتے رہے


اب تک کسی بھی چہرے پہ ٹھہری نہیں نظر
عرفانؔ کیا تھا تجھ میں جو ہم دیکھتے رہے