جب کوئی زخم مرے دل پہ نیا لگتا ہے

جب کوئی زخم مرے دل پہ نیا لگتا ہے
تب مجھے حوصلہ جینے کا ہرا لگتا ہے


عشق کے دن تھے کہ نفرت بھی بھلی لگتی تھی
اب کوئی پیار سے دیکھے تو برا لگتا ہے


جانے کیوں اب میں کتابیں بھی اگر پڑھتا ہوں
ان میں بھی تیرے ہی ہاتھوں کا لکھا لگتا ہے


نہ ملا جس کو ہر اک گام پہ ڈھونڈ آیا میں
وہ تو مجھ کو مرے اندر ہی چھپا لگتا ہے


میں تو اس شہر میں جیتا ہوں کہ ارشادؔ جہاں
خیریت پوچھنے والا بھی ڈرا لگتا ہے