رہ رہ کر جو تھک کر بیٹھے اس کو چلنا کب آتا ہے

رہ رہ کر جو تھک کر بیٹھے اس کو چلنا کب آتا ہے
یار مسلسل چلتے رہنے سے چلنے کا ڈھب آتا ہے


دیوانوں کی دنیا کے دستور بہت الٹے ہوتے ہیں
منزل مل جاتی ہے پہلے تب جا کر مکتب آتا ہے


اس دنیا میں مفلس ہونا موت سے کچھ آگے کا دکھ ہے
اس کے بھی بچے بھوکے ہیں جس کو یہاں کرتب آتا ہے


اسی لیے تو روکا نہیں ہے میں نے اس کو چلے جانے سے
مجھ کو یہ بھی دیکھنا ہے وہ لوٹ کے آخر کب آتا ہے


جن لوگوں میں محنت کے جذبے ہیں وہ سارے بے بس ہیں
اور جو کچھ بھی کر نہیں پاتے ان لوگوں کو سب آتا ہے