شاعری

قلم سے رابطۂ رنگ و آب ٹوٹ گیا

قلم سے رابطۂ رنگ و آب ٹوٹ گیا کسی مصور فطرت کا خواب ٹوٹ گیا یہ دل کہ سنگ نہ تھا ایک آبگینہ تھا نہ لا سکا ترے جلووں کی تاب ٹوٹ گیا سوال یہ ہے کہ میں نے کسی سے کیا پایا جواب یہ ہے کہ برسوں کا خواب ٹوٹ گیا ہوا وہ مجھ سے مخاطب تو یوں لگا جیسے کوئی ستارۂ گردوں رکاب ٹوٹ گیا اصول آمد و ...

مزید پڑھیے

نم ہوئی چشم وفا راز محبت کھل گیا

نم ہوئی چشم وفا راز محبت کھل گیا آخرش بند قبا ئے ضبط الفت کھل گیا جب دل وحشی نگاہ ناز کا مرکز بنا حال دنیا پر ترا اے جذب وحشت کھل گیا شاہ راہ آرزو پر دو قدم چلنے کے بعد حسن قسمت سے در زندان الفت کھل گیا جھک گیا فرط ندامت سے گنہ گاروں کا سر ہو گئی چشم عنایت باب رحمت کھل ...

مزید پڑھیے

نغمہ زن ہے نظر بے آواز

نغمہ زن ہے نظر بے آواز کیوں مرے دل اثر بے آواز میرے دل سے انہیں اپنے دل کی مل رہی ہے خبر بے آواز لاکھ کرنوں کی زباں رکھتا ہے ایک نور سحر بے آواز ہوئی برباد پس بے ہنراں سعیٔ عرض ہنر بے آواز پئے ہنگامۂ ہستیٔ بشر موت ہے چارہ گر بے آواز ہے وہ بے پاؤں گزرنے کی دلیل ارتقا کا سفر بے ...

مزید پڑھیے

لب خموش کو ارمان گفتگو ہی سہی

لب خموش کو ارمان گفتگو ہی سہی جگر میں حوصلۂ عرض آرزو ہی سہی اثر قبول ہے مجھ کو بدلتی قدروں کا رگ حیات میں اسلاف کا لہو ہی سہی نماز عشق ادا ہو رہی ہے مقتل میں یہ پرخلوص عبادت ہے بے وضو ہی سہی اسے بھی خوف ہے گلشن میں زرد موسم کا وہ سرخ پھول کی مانند شعلہ رو ہی سہی جنون عشق کے ...

مزید پڑھیے

افکار کے سانچے میں ڈھلی تازہ غزل ہے

افکار کے سانچے میں ڈھلی تازہ غزل ہے یا وقت کے پیچیدہ سوالات کا حل ہے یہ سنگ کی بنیاد پہ تعمیر نہ ہوگا یہ میرے تخیل کا حسیں شیش محل ہے میں اپنی محبت کا بدل ڈھونڈ رہا ہوں وہ کون ہے جو میری محبت کا بدل ہے اے تار نفس ٹوٹ بھی جا دیر نہ کر اب احساس کی بالیں پہ کھڑی کب سے اجل ہے جو ...

مزید پڑھیے

دل مضطر کو سمجھا لوں بہت ہے

دل مضطر کو سمجھا لوں بہت ہے میں خود سے اپنا گھر چھالوں بہت ہے میں اپنی زندگی بے وفا کو وفا کے جام میں ڈھالوں بہت ہے بھگو کر آنسوؤں سے اپنا چہرہ سفر کی گرد دھو ڈالوں بہت ہے سکوت انجمن ٹوٹے نہ ٹوٹے بہ شوق زمزمہ گا لوں بہت ہے نواح زندگی میں اک ذرا سا فریب دوستی کھا لوں بہت ...

مزید پڑھیے

حیوان کی منزل میں بشر ہے کہ نہیں ہے

حیوان کی منزل میں بشر ہے کہ نہیں ہے انسان کو انسان کا ڈر ہے کہ نہیں ہے معیار تجلی سے تو واقف ہیں نگاہیں جلوؤں کو بھی انداز نظر ہے کہ نہیں ہے فرزانہ دوراں بھی ہے اس بات پہ خاموش دیوانہ سر راہ گزر ہے کہ نہیں ہے جس عزم سے منزل پہ پہنچتے ہیں مسافر وہ عزم بہ ایں ذوق سفر ہے کہ نہیں ...

مزید پڑھیے

بے معنی لا حاصل ردی شعروں کا ہے جال ادھر

بے معنی لا حاصل ردی شعروں کا ہے جال ادھر جو چیزیں بیکار ہیں پیارے ان چیزوں کو ڈال ادھر کچھ تجویزیں پاس کرے گا وقت کے ہاتھوں یہ اجلاس مجبور و نادار ادھر ہیں آسودہ خوش حال ادھر بیچ میں حائل کر دے کوئی کاش تکلف کی دیوار ادھر ہے ریلا گل چینوں کا اور گلوں میں کال ادھر خون تمنا کی ...

مزید پڑھیے

جنون شوق کو دیوانہ پن کہنا ہی پڑتا ہے

جنون شوق کو دیوانہ پن کہنا ہی پڑتا ہے یہاں تو راہبر کو راہزن کہنا ہی پڑتا ہے تصور کو ترے جلوہ فگن کہنا ہی پڑتا ہے ہمیں تنہائی کو بھی انجمن کہنا ہی پڑتا ہے یہ مجبوری یہ مایوسی یہ پابندی ارے توبہ مصیبت میں قفس کو بھی چمن کہنا ہی پڑتا ہے کچھ اس انداز کے مجھ سے مجھے آزار پہنچے ...

مزید پڑھیے

دل تباہ ہو خنداں نہیں تو کچھ بھی نہیں

دل تباہ ہو خنداں نہیں تو کچھ بھی نہیں خزاں میں رنگ بہاراں نہیں تو کچھ بھی نہیں وہ دل جو نام محبت پہ مسکراتا ہے حریف گردش دوراں نہیں تو کچھ بھی نہیں یہ کرب و آہ کی دنیا عجیب دنیا ہے اگر حیات غزل خواں نہیں تو کچھ بھی نہیں جہاں کی خاک جو چھانے کوئی تو کیا حاصل طواف کوچۂ جاناں نہیں ...

مزید پڑھیے
صفحہ 1141 سے 4657