لب خموش کو ارمان گفتگو ہی سہی

لب خموش کو ارمان گفتگو ہی سہی
جگر میں حوصلۂ عرض آرزو ہی سہی


اثر قبول ہے مجھ کو بدلتی قدروں کا
رگ حیات میں اسلاف کا لہو ہی سہی


نماز عشق ادا ہو رہی ہے مقتل میں
یہ پرخلوص عبادت ہے بے وضو ہی سہی


اسے بھی خوف ہے گلشن میں زرد موسم کا
وہ سرخ پھول کی مانند شعلہ رو ہی سہی


جنون عشق کے لشکر سے ہار جائے گی
سپاہ ہوش و خرد لاکھ جنگ جو ہی سہی


وہ میری تشنگیٔ دل بجھا نہیں سکتا
کھنکتا جام چھلکتا ہوا سبو ہی سہی


میں ایک حرف ملامت ہوں اس کے دامن پر
وہ میری پاک محبت کی آبرو ہی سہی


مری نگاہ کا مرکز نہیں تو کچھ بھی نہیں
وہ خود پسند نگاہوں میں خوب رو ہی سہی


صباؔ کہ شاعر خوش فکر ہے مگر گمنام
ہر ایک اس سے ہے واقف وہ خوش گلو ہی سہی